نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

انوکھی سزا عالم کو

پانچ گناہ گاروں کی انوکھی سزا

آج بادشاہ کو بیٹھے بٹھائے ایک عجیب خیال آیا۔ اس نے وزیر اعظم کو حکم دیا کہ ریاست کے بڑے بڑے پانچ گناہ گار پکڑ کر دربار میں پیش کیے جائیں، یہ ایک عجیب و غریب خیال تھا۔ اب بھلا یہ تعین کیسے ہوتا کہ سب سے بڑا خطا کار کون ہے اور وہ بھی ایک نہیں پانچ۔
وزیر اعظم نے بادشاہ سے دو یوم کی مہلت طلب کی جو اس نے بخوشی دے دی۔ وزیراعظم اپنی رہائش گاہ کو لوٹ آیا۔ پہلا دن تو سوچ بچار میں گزر گیا، وہ جتنا سوچتا اس قدر پریشان ہو جاتا۔ اب بھلا وہ کسے بڑا گناہ کار سمجھ کر گرفتار کروادیتا۔ بالآخر سوچتے سوچتے اسے ایک نکتہ مل گیا، بس اسی نکتے کو ذہن میں رکھ کر اس نے اپنا آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا شروع کردیا۔
دو دن جھٹ پٹ گزر گئے، پانچ بڑے گناہ گاروں والی بات اب ریاست کی عوام تک پہنچ چکی تھی، ہر شخص پارسائی کا دعویدار تھا۔ گناہ گار بھی خود کو نیک ظاہر کررہے تھے، آخر وزیر اعظم کا حکم تھا، چنانچہ کوتوال نے شہر بھر سے پانچ بڑے گناہ گار پکڑ لیے، ان پانچ گناہ گاروں کو دیکھنے کے لیے ایک جم غفیر امڈ آیا۔ ہر کوئی یہ دیکھنے کو بے تاب تھا کہ آخر ریاست کی نظر میں کون بڑا گناہ گار ہے اور اس کا حشر کیا ہوگا، شاہی دربار کے اندر اور محل کے باہر ہجوم تھا، بادشاہ تخت پر براجمان تھا، بادشاہ کے اشارے پر پانچ بڑے گناہ گاروں میں سے پہلے شخص کو پیش کیا گیا۔
عالم پناہ، یہ بہت بڑا گناہ گار ہے، یہ کھانے پینے کی اشیاءمیں ملاوٹ کرتا ہے، ناجائز منافع کمانے کے لیے یہ کچھ بھی کرسکتا ہے، اسے موت یاد نہیں اور ہر لحظہ دولت کمانے کے نت نئے منصوبے بناتا رہتا ہے۔ اس کی دولت کا شمار نہیں اور یہ بہت بڑا گناہ گارا ہے، وزیر اعظم نے اس کا تعارف کروایا۔ بادشاہ نے غصے سے اسے دیکھا اور جیل میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔ اس کے ساتھ حکم دیا کہ جیل میں اسے سونے اور اوڑھنے کے لیے نوٹ دیے جائیں، اس قدر دولت دے دی جائے کہ اسے ہر طرف نوٹ ہی نوٹ دکھائی دیں۔ اس کے علاوہ ہر روز اسے ملاوٹ والا کھانا دیا جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور جیل میں پہنچادیا گیا۔
عالم پناہ، یہ دوسرا بڑا گناہ گار ہے، یہ غیبت، چغلی اور حسد میں مصروف رہتا ہے، ساری دنیا بری ہے بس یہ اچھا ہے۔ دوسروں کی خوشی، ترقی اور خوشحالی سے جلتا رہتا ہے، زبان زیادہ چلاتا ہے اور کام کم کرتا ہے، معاشرے میں فساد پھیلاتا ہے۔ وزیر اعظم نے ایک شخص کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ بادشاہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ جاﺅ اسے قید خانے میں ڈال دو، اس کی سزا یہ ہے کہ یہ ہر وقت زبان سے بک بک کرتا رہے، تاکہ اسے فضول بولنے کی سزا مل سکے۔ جب یہ خاموش ہو تو کوڑے مار مار کر اس کی زبان کھولی جائے، حتیٰ کہ سوائے اچھی بات کے کوئی اور بات اس کے منہ سے نہ نکلے۔ بادشاہ کے حکم پر اسے بھی قید میں ڈال دیا گیا۔
عالی جاہ، یہ تیسرا بڑا گناہ گار ہے، یہ راشی ہے، حالاں کہ اسے اچھی بھلی تنخواہ ملتی ہے لیکن اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں سے جائز کام کے بھی پیسے بٹورتا ہے۔ یہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خوف سے عاری ہے۔ وزیر اعظم کی اس بات پر بادشاہ کا پارہ چڑھ گیا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے قید خانے میں ڈال دیا جائے، اس کو اس قدر دولت دی جائے کہ ویہ ہر وقت نوٹ گنتا رہے، جب اس کے ہاتھ نوٹ گنتے ہوئے تھک جائیں تو ہاتھوں پر ضرب لگائی جائے، اس کو اتنا تھکادو کہ آئندہ جائز دولت کے علاوہ یہ کوئی ناجائز پیسہ نہ پکڑسکے۔ چنانچہ حکم کی تعلیم کی گئی۔
اب چوتھے کی باری آگئی۔ بادشاہ سلامت یہ چوتھا گناہ گار ہے، یہ والدین کا نافرمان ہے، لوگوں پر رحم نہیں کرتا، بچوں پر شفقت نہیں کرتا۔ جواب کھیلتا ہے اور ناجائز کام کرتا ہے، اس مرتبہ بھی بادشاہ سخت برہم ہوا۔ حکم کے مطابق اسے جیل پہنچادیا گیا۔ اس کو سزا ملی کہ روزانہ اس کے والدین اسے قید خانے میں ملاقات کریں گے اور یہ ان کی خدمت کرے گا، روزانہ ایک ہزار بچے اس سے ملیں گے، جن کے ساتھ یہ شفقت سے پیش آئے گا اور روزانہ لاکھوں روپے اسے دے کر رات کو واپس لے لیے جائیں تاکہ جواری کی حیثیت سے اسے دولت کا غم دیا جاسکے۔
پانچواںگناہ گار دربار میں پیش کیا گیا تو ہر طرف ہوکا عالم تھا، کیوں کہ یہ ملک کا مشہور عالم تھا۔ لوگ اس کے علمی جاہ و جلال کے باعث اس کی بہت عزت کرتے تھے، مجرموں اور گناہ گاروں کی فہرست میں اس کو دیکھ کر لوگ دم بخود رہ گئے۔ وزیر اعظم نے کہا عالی جاہ، یہ پانچواں بڑا گناہ گار ہے، یہ سائنسی علوم کا ماہر ہے۔ لوگوں کو سائنس اور سائنسی طرز زندگی کے بارے میں بتاتا ہے۔ خود صاف ستھرا رہتا ہے، کتابیں شوق سے پڑھتا ہے، رات دن مطالعہ میں غرق رہتا ہے، لوگوں کو اچھی اچھی باتیں بتاتا ہے، لوگ اس کی زبان دانی سے بہت مرعوب ہوتے ہیں، اب تک وزیر اعظم نے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی، جو اسے بڑا گناہ گار ثابت کرتی۔ بادشاہ حیرت سے ساری بات سن رہا تھا، وزیر اعظم نے کہا۔ حضور! تمام تر اچھی باتوں کے باوجود یہ شخص خود اپنی روزمرہ زندگی میں کسی سائنسی اصول پر عمل نہیں کرتا۔ لوگوں کو درس دیتا ہے کہ آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز زندگی سائنسی تھا، لیکن خود اس کے خلاف عمل کرتا ہے، گویا اس عالم کا علم بے عمل ہے۔ بادشاہ اس مرتبہ تخت سے اٹھ کھڑا ہوا، بے شک یہ ہمارا اور ہماری قوم کا سب سے بڑا مجرم ہے۔ اگر عالم بے عمل ہوجائے تو وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی، جوا، شراب، چوری، بدمعاشی اور ناجائز دولت کی ہوس کے ساتھ ساتھ والدین کی نافرمانی اور حقوق العباد سے بے اعتنائی کی شکایت تبھی پیدا ہوتی ہے کہ جب کسی معاشرے کا استاد قول و فعل کے تضاد کا شکار ہوجائے، بادشاہ کی نگاہیں قہر آلود ہورہی تھیں۔ وزیر اعظم نے پوچھا۔
عالی جاہ، اس کے لیے کیا حکم ہے۔
بادشاہ نے ایک نظر اس پر ڈالی اور کہا۔
دوسرے گناہ گاروں کو چھوڑ دو اور اس عالم کا سر قلم کردو تاکہ آئندہ اس معاشرے میں بے عمل لوگ باقی نہ رہ سکیں۔
بادشاہ کی طرف سے سزا کے اعلان پر دربار پر سکتہ طاری ہوگیا۔ محل کے اندر اور باہر پہلی بار اس بات کو محسوس کیا گیا کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی و خوشحالی کے لیے استاد کا کردار کیا ہونا چاہیے۔ سزا ملتے ہی عالم کا رنگ زرد پڑگیا۔ وہ التجا کرنے لگا، عالی جاہ رحم، مجھ پر اس قدر سزا کا حکم نہ لاگو کیا جائے، مجھے مہلت دی جائے، لیکن بادشاہ ٹس سے مس نہ ہوا، بادشاہ کے جاہ و جلال کے سامنے کسی کو بولنے کی جرات نہ تھی، یقینی تھا کہ بے عمل کا سر قلم کردیا جاتا لیکن اس دوران قاضی بول پڑا، بادشاہ سلامت آپ نے درست فیصلہ صادر فرمایا، لیکن میری ایک درخواست ہے کہ پروردگار عالم بھی گناہ گار کو توبہ کی مہلت ضرور دیتا ہے، اگر یہ اور اس طرح کے دوسرے اساتذہ بے عملی چھوڑ کر راہ راست پر آجائیں تو کیا خوب ہوجائے۔ خطاکار کو اصلاح کی گنجائش کا فائدہ ضرور دینا چاہیے، لہٰذا سزا پر نظر ثانی کی جائے۔ قاضی کی بات میں وزن تھا، چنانچہ بادشاہ نے عالم کو پانچ سال کا وقت دے دیا کہ وہ اپنے علم و عمل سے معاشرے میں جہالت کے اندھیروں کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکے۔
سائنس محض ایک لفظ نہیں طرز حیات ہے، اس انداز فکر کی عملی تصویر آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے اور اس کےک عمل کی تصویر قرآن حکیم ہے۔
نوٹ: علمائے سوء یعنی برے عالموں کی حدیث پاک میں بھی مذمت آئی ھے تو برائے کرم اس بات کو علمائے سوء کے تناظر میں دیکھا جائے ، علمائے حق کے لئے نہیں ھے یہ بات اوریہ پوسٹ ۔۔ شکریہ

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گیدڑ سینگی کیا ہے

گیدڑ سینگی کیا ہے اکثر لوگ اس حوالے سے نابلعد ہوتے ہیں کوئی سمجھتا ہے کوئی جاندار ہے کوئی کہتا ہے کہ شاہد کوئی جڑی بوٹی ہے لیکن عموما لوگ محاوروں میں استعمال کرتے رہتے ہیں کہ اور اپنی طرف سے خیالی پلاؤ بھی بناتے ہے شاہد کوئی خاص چیز ہے کہتے ہیں کہ جس کہ پاس گیدڑ سینگی ہوتا ہے لوگ اس کے شیدائی ہوتے ہے لوگ اس سے ملنے کے لیے ترسے ہیں لیکن یہ صرف کہانی کی حد تک ہے ۔ گیدڑ سنگهی دراصل گیدڑ کے سر میں نکلنے والی ایک رسولی یا پهوڑا ہوتا ہے جو کہ اسکے سر میں اپنی شاخیں پهیلاتا ہے اور  ایک خاص  حد تک بڑا ہونے کے بعد خود بخود جهڑ کر گر جاتا ہے اور کہا جاتا ہے گرنے کے بعد بهی اس میں جان ہوتی ہے اور اسکے بال بڑھتے  رہتے ہیں جنکی خاص تراش خراش کی جاتی ہے. گرنے کے بعد کمزور عقیدہ والوں کو قابو کرنے کیلئے جادو ٹونے کرنے والے اسے اٹها کر لے جاتے ہیں اور اپنے خاص مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں. سنا ہے کہ اسے سندور میں ہی رکها جاتا ہے ورنہ اسکی بڑهوتری ختم ہوجاتی ہے یہاں تک کہ یہ مر جاتا ہے. میرے ناقص علم کے مطابق یہ نر اور مادہ حالتوں میں ہوتا ہے. جادوگروں کے پاس شوہر یا م...

بیوی کا شکوہ

صرف وہ لطف اندوز ہوں گے جو علامہ محمد اقبال کا شکوہ اور جواب ِ شکوہ پڑھ چکے ہیں اور شادی شدہ بھی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ازدواجی "شکوہ اور جواب شکوہ" شاعر- نامع...

کراچی میں کہاں کیسے ہوتا ہے فراڈ ?

دنیا کے ھر کونے میں آپ کو ایسے لوگ ضرور مل جائینگے جو بڑے ہی انوکھے انداز میں لوگوں کو الو بنالیتے ہیں ,دنیا کے اکثر بڑھے شہروں میں عجیب قسم کے فراڈیے ہوں گے مگر شہر کراچی کے صدر مارکیٹ میں جاتے ہیں.وہاں آپکو ایک آواز سنائی دیتی ہے 100 روپے میں ٹی وی 50روپے میں کمپیوٹر تو سمجھ جاناکہ یہ ایک فراڈیے کی دوکان ہے جو لوگوں کو بڑی ہوشیاری سے ماموں بنا لیتے ہیں اس کے علاوہ یہی صدر کے ایمپریس مارکیٹ میں چند لوگ اس کے علاوہ بھی ایک طرح کا فراڈ کرتے ہوئے نظر آئینگے .لوگوں کو روک کر بولتے ہیں کہ آپ کو کوئی بیماری یا جلد کا مسئلہ ہے سر کے بال گر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ تو آپ کو دوائی لکھنے کے بہانے چھونا لگا لینگے ,​اس کے علاوہ کچھ اخبارات کے اشتہارات میں ملازمت کی خبر لگاتے ہیں تعلیم ,عمر ,کی کوئی قید نہیں پارٹ ٹائم کام کرکے لاکھوں کمائے ,اس طرح کے نوسر باز بھی بہت ٹکرائینگےان لوگوں کا بہت وسیع نیٹ ورک ہوتا ہے آپ جب انٹرویو کے لیے جائینگے تو رجسٹریشن کے نام پر ایک ہزار سے دس ہزار تک وصول کرتے ہیں اس طرح کئی ادارے کراچی میں موجود ہیں جو بعد میں آپ کو پریسنٹیشن دیں گے اور مزید لوگ لانے کا ٹاسک دیا جائ...