اپنے ہاتھوں سے خود اپنے درد کا درماں لکھا
دل کے کاغذ پر دُعاؤں کے برابر ماں لکھا
دل کے کاغذ پر دُعاؤں کے برابر ماں لکھا
فرطِ غم سے دل کی دھڑکن جب بھی بےقابو ہوئی
لوحِ جاں پر زندگی نے مسکرا کر ماں لکھا
میں سراپا روشنی کا ایک حسیں مینا رہوں
دل کے اندر ماں لکھا دل باہر ماں لکھا
حافظے کو مسئلہ درپیش تھا تجدید کا
ذہن کی دیوار پر میں نے مکرر ماں لکھا
دھوپ موسم مرا چہرا وہ آنچل کی ہوا
زندگی بھر میری آنکھوں نے یہ منظر ماں لکھا
میرا دامن بھر گیا ہے گوہرِ نایاب سے
جب بھی میں نے تجھ کو اے گہرے سمندر ماں لکھا
لکھ رہی تھی چاندنی جب ریت کے ذرات پر
چشمِ شبنم نے بھی پھولوں پہ اُتر کر ماں لکھا
اُسی کے نام سے تھی ابتدائے خوش خطی
لفظ جتنے میںنے لکھے سب سے بہتر ماں لکھا
عرش سے بھیجی تھی رب نے پہلی ماں جو فرش پر
نورِ ممتا اُس سے پھیلا جس نے گھر گھر ماں لکھا
اپنی ماں سے تیرا قد مجھ کو بہت چھوٹا لگا
تجھ پہ آکر میں نے جب چاہت کے ممبر ماں لکھا
میں نے انجم اپنا پیکر یوں منور کر لیا
صبح دم سے چاندنی تک بس سراسر ماں لکھا
نہیں مجھے بھوک نہیں لگی ہے، مجھے یہ پسند نہیں ہے، آپ کہا لے میں رات کو کہا لوں گا،میرے کپڑے نئے ہیں آپ ان کے لیے لے کر آجائے،یہ جملے اکثر مشرقی ماں کے ہوتے ہیں۔اپنی خواہشات پسند نہ پسند سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بس ساری زندگی اپنے بچوں کے پیار میں گزارتا ہے ، خود پٹھے پرانے کپڑے پہن کر بچوں کو نیا کپڑا دلواتی ہے، خود ایک نہوالہ کہا کر کہتی ہے پیٹ بھر گیا ہے تاکہ میرے بچے پیٹ بھر کر کھانا کہا لے جب بچے چھوٹے ہوتے ہیں انہیں لوری سنا سنا کر سھلاتے اور خود جاگتے رہتے جب بچے بڑے ہو جاتے تو ان کے انتظار میں جاگتے رہتے ، شوہر بوڑھا ہو جائے اس کی خدمت میں اپنی زندگی سرف کردیں۔اپنے بچوں کی شرارتوں کو چھپائے ، پوری رات اسی کشمکش میں جاگے کئی میرے بچے کو سردی تو نہیں لگ رہی کئی گرمی تو نہیں لگ رہی ہے،اسی ممتا کی محبت کہاں سے ڈھونڈھ کر لائے ، جب وقت ڈھلتا جاتا ہے ماں ،باپ بوڑھے ہوجاتے ہیں وہ اکیلے دونوں ساتھ بچوں کو پالتے تھے ان کے نخرے بھی آٹھاتے تھے لیکن یہی سات بچوں سے والدین نہیں سنبھلتے بچپن میں ایک سوال ہزار بار پوچھ لیتے تھے پھر بھی آگئے سے محبت ملتی تھی لیکن والدین اگر کوئی بات نہ سنے دوبارہ پوچھ لے تو ان کے لیے محبت نہیں ڈانٹ ہے، ان بزرگوں سے ہی گھر کی برکت ہوتی ہے جو طویل نمازوں میں دعائیں پڑتھے ہیں تو فرشتے بھی رشک کرتے ہیں ان کی عبادتوں پر لیکن ان کے لیے کسی کے پاس کوئی جگہ نہیں صرف ان کے پیسے جائیداد سے تعلق ہوتا ہے ، لیکن ان کے لیے کسی کے گھر جگہ نہیں یا اولڈ ہاؤس میں یا ایدھی میں، یا کچھ دن کسی کے گھر کچھ دن کسی کے گھر ، آخر کار تھک ہار کر ماں باپ کو یا بیٹی گھر پناہ ملتی ہے یا پر قبر میں ، حالانکہ پوری زندگی وہ اپنے بیٹوں پر رشک کرتا ہے فخر کرتا ہے لوگوں سے کہتا پھرتا ہے کہ میرے بوڑھاپے کہا سہارا ہے یہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا لیکن جس دن ہاتھ کام کرنا چھوڑ دیں پیر لڑکھڑانے لگے تو بچوں کے بھی تہور بدلنا بھی شروع ہوجاتے ہیں ،اس کی سب سے بڑی وجہ اکائی خاندان سسٹم ہے ۔پہلے مشترکہ خاندانی نظام ہوتا تھا تو لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر شرم بھی محسوس کرتے تھے اور باقی خاندان کے لوگ بھی ایک دوسرے کا سہارہ بنتے تھے لیکن اب مغربی طرز پر اکائی خاندانی سسٹم نے ہمارے خاندانی نظام کو تباہ کردیا ہے۔اللہ پاک ہمیں اپنے بزرگوں کی عزت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم رکھے ۔آمین
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں