سلسلہ "معمہ"
کیس نمبر: 16
"نازکا خطوط"
کندہ کاری سے مراد پتھر یا کسی دھات پر کوئی تحریر یا تصویر کندہ کرنا ہے۔ صدیوں پرانا یہ رواج جہاں ایک طرف تاریخ کے مضمون کا سب سے اہم اور دلچسپ موضوع ہے تو دوسری طرف تاریخ دانوں کو صدیوں پرانے تاریخی ادوار کے حالات سمجھنے میں بھرپور مدد فراہم کرتا ہے۔
آج کے انسان نے کندہ کاری کی مدد سے فراعین مصر سے لے کر ہلاکو خان کی زندگی کے راز جانے مگر آج بھی دنیا میں کندہ کاری کے سینکڑوں ایسے نقوش اور خطوط موجود ہیں جسنے کئ سالوں سے ماہرین آثار قدیمہ کو سوچنے پر مجبور کیئے رکھا ہے۔
نازکا خطوط پرو (Peru) کے جنوب میں واقع دشتِ نازکا میں دریافت ہوے ہیں۔ انہیں 1994 میں اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے زیراہتمام عالمی ورثہ قرار دے دیا گیا ہے۔ ان خطوط کا مقام پرو کے صدر مقام لیما سے کوئی 400 کلومیٹر دور جنوب کی سمت ہے جو 80 کلومیٹر کے بارانی سطح مرتفع پر نازکا اور پالپا کے شہروں کے درمیان ہے۔
ان خطوط کی تعداد دو چار دس یا بیس نہیں بل کہ یہ سیکڑوں کی تعداد میں ہیں اور یہ سب ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ ان میں پرندوں، مکڑیوں، بندروں، مچھلیوں اور چھپکلیوں کی اشکال شامل ہیں اس کے علاوہ پیچیدہ ہندسائی (Geometrical) اشکال بھی کھینچی گئی ہیں۔
ایسی اشکال کے قدیم نمونے تو دنیا میں بے شمار دریافت ہو چکے ہیں اور ہوتے چلے جا رہے ہیں مگر صحرائی علاقے کی سرخی مائل سطح کو ادھیڑ کر زمین پر کھینچی گئی نازکا خطوط اس لحاظ سے تحیر خیز ہیں کہ یہ خطوط زمین پرچلتے ہوے سمجھ میں نہیں آتے۔ کیونکہ یہ اپنی جسامت میں اس قدر بڑی بڑی ہیں کہ انہیں یا تو دوران پرواز دیکھا جا سکتا ہے یا پھر اردگرد کے بلند و بالا پہاڑوں پر کھڑے ہو کر، تاہم یہ ہوائی جہاز سے زیادہ واضح نظر آتی ہیں۔ انہیں پہلی بار 1927 میں پرو کے ماہر آثار قدیمہ توریبو میجیا نے یہاں کوہ پیمائی کی ایک مہم کے دوران دریافت کیا تھا۔
یہ خطوط میل دو میل پر نہیں پھیلے بلکہ انہوں نے 5 سو مربع کلومیٹر کا علاقہ گھیر رکھا ہے۔ ان میں سب سے بڑی شکل 890 فٹ پر بنی ہوئی ہے۔ ان میں ہمنگ پرندے کی شبیہ 310 فٹ، کونڈو کی شبیہ 440 فٹ، بندر کی 310 فٹ اور مکڑی کی ’’تصویر‘‘ ڈیڑھ سو فٹ پر پھیلی ہوئی ہے اور یہ سب کچھ نازکا کے انتہائی خشک موسم کی وجہ سے آج تک یوں محفوظ ہیں جیسے کچھ عرصہ پہلے بنائی گئی ہوں۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ خطوط چوتھی سے ساتویں صدی عیسوی کے درمیانی عرصے میں تخلیق کیے گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ سیکڑوں برس پہلے ان کا توازن ان لوگوں نے کیسے برقرار رکھا ہوگا؟
کیا ان کے پاس فضاء میں بلند ہونے کا کوئی طریقہ تھا؟ کیا وہ اڑ سکتے تھے؟ یا وہ بہت ہی قدآور تھے؟ اب تک ان لکیروں یا خطوط کی جتنی تصاویر سامنے آئی ہیں سب فضاء سے سیٹلائیٹ کے ذریعے لی گئی ہیں۔
کیا یہ تصاویر اسی طرح بے معنی ہیں کہ جس طرح ہمیں نظر آتی ہیں؟
ارضیات، سماجیات، عمرانیات اور دیگر علوم کے علماء کہتے ہیں کہ یہ خطوط بے معنی ہرگز نہیں ہوسکتے اسی لئے سب اپنے اپنے طور پر ان اشکال کے مقاصد کی شرح کرتے ہیں۔
مزہبی عقائد:
پرانے آثار، نسلیات اور عمرانیات کے ماہرین قدیم نازکا تہذیب کے مطالعے میں مسلسل مصروف ہیں تاکہ ان خطوط کے اسرار کو بے نقاب کیا جا سکے۔ ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ نازکا دیوتا پرستوں نے اتنی عظیم الجثہ اشکال اس لیے تخلیق کی ہیں تاکہ آسمانوں پر بیٹھے ’’خدائوں کے گروہ‘‘ انہیں با آسانی دیکھ سکیں۔ تاریخ میں مذہبی گروہوں کی ایسی کئ نشانیاں دیکھی جا سکتی ہیں جن کا تعلق کسی مذہبی عقیدے سے ہوتا ہے۔
جادوئی تعویذات:
دنیا کے تقریباً تمام ہی قوموں اور مزاہب میں تعویذات کا تصور پایا جاتا ہے وہ الگ بات ہے کہ اب یہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں تاریخ میں ایسی کئ قوموں کے بارے میں پڑھنے کو ملتا ہے کہ وہ جادو اور تعویذات کا علم حاصل کرتے تھے۔ اسی لئے بعض کے قریب یہ خطوط نازکا لوگوں کی مذہبی اسراریات سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان کا قیاس ہے کہ زمین میں کھدے یہ خطوط دراصل وہ نالیاں ہیں جن کا مقصد دیوتائوں سے پانی یا بارش طلب کرنے کا ایک طرح سے تعویز ہیں، مکڑوں، پرندوں، درختوں اور پودوں کی اشکال زرخیزی کی علامات ہیں۔
نجومیات اور فلکیات:
ماہر فلکیات، کوسوک اور ریشے انہیں نجومیات اور فلکیات سے منسلک کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خطوط دراصل ایک طرح کی رصدگاہ ہیں جن کے ذریعے دور افق میں ان دور دراز مقامات کا تعین کیا جا سکے جہاں سورج اور دوسرے اجرامِ فلکی طلوع وغروب ہوتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ امریکا کے مختلف علاقوں اور دنیا کے دیگر مقامات پر زمین پر متعدد ایسے کام کیے گئے ہیں جن کا مقصد کائنات کی الوہی تشریح کرنا تھا وہ اپنے دعوے کے حق میں "کاہوکیا" کے "مسس پی کلچر" کی مثال دیتے ہیں جو آج کل ریاست ہائے متحدہ امریکا میں شامل ہے۔ اس کی اور مثال انگلستان کے سٹون ہنج کی ہے۔ البتہ کچھ نامور ماہرین اس مفروضے کو رد کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس مفروضے کو کوئی استدلال تقویت نہیں دیتا۔
آب پاشی کی نشاندھی:
بعض سائنسدان اسے آب پاشی کی سکیمیں بھی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نازکا کے لوگوں نے یہ نشانات زیر زمین پہتے پانی کی نشاندھی کے لئے لگائے تھے۔ نازکا میں ایسے کافی کنوئیں دریافت ہوئے ہیں جس کے ذریعے سے زمین کی گہرائیوں سے پانی حاصل کیا جاتا تھا۔
ٹیکسٹائل ملز:
سوئیزر لینڈ کے تاریخ فنون کے ماہر ہنری سٹیئرلین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ خطوط دراصل حنوط کیے گئے مردوں کے کفن بننے والی عظیم الشان کھڈیوں (Looms) کے نشانات ہیں۔ ان پر بہت لمبائی اور چوڑائی والا کپڑا بنا جاتا تھا۔ یعنی یہاں نازکا دور میں ٹیکسٹائل ملز ہوا کرتے تھے۔ اس کے ثبوت میں وہ اسی علاقے سے برآمد ہونے والی پاراکاس تہذیب کے لوگوں کی حنوط شدہ لاشیں پیش کرتے ہیں جنہیں ایک خاص طرح کے بنے ہوے کپڑے میں کفنایا گیا ہے تاہم اس نظریے کو بھی پذیرائی نہیں ملی، البتہ یہ ضرور ہے کہ لاشوں کو جن کپڑوں میں لپیٹا گیا ہے ان پر بنے ڈیزائن ان خطوط سے ملتے جلتے ہیں۔
صرف ایک شوق:
کندہ کاری صدیوں پرانا رواج ہے تاریخ میں کئ قوموں نے اس فن کی سرپرستی کی ہے۔
میرے گاؤں میں کافی ایسے بڑے بڑے تاریخی پتھر دور دراز پہاڑوں میں موجود ہیں جس پر اگر آپ اپنا نام لکھنا چاہو تو آپ کو چھوٹی سی چھوٹی جگہ بھی ایسی نہیں ملے گی جس پر آپ اپنا نام لکھ سکو۔ ان پتھروں پر ایسے سینکڑوں پرانے نام بھی موجود ہیں جن ناموں کے لوگوں کو اب گاؤں والے نہیں جانتے۔ کچھ کے ساتھ پرانی تاریخیں بھی لکھی ہوئی ہیں۔ وہ تمام نام چاقو یا کسی اور نوکیلی چیزوں سے کندہ کئے گئے ہیں اور ان میں نام سے کئی جگہ پر کچھ ڈیزائن بھی بنائے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ یادداشت یا دلی تسکین کے لئے لکھیں گئے ہیں تو ہو سکتا نازکا کی ان خطوط کا مقصد بھی صرف دلی تسکین ہو جو اس دور میں اہمیت کے حامل رہا ہو۔
خلائی مخلوق کا کارنامہ:
کچھ لوگ اسے خلائی مخلوق کا کارنامہ بھی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تصویریں جب زمین پر کھڑے ہو کر دیکھی نہیں جا سکتی تو اسے زمین پر کھڑے ہو کر بنایا کیسے جا سکتا ہے۔ وہ بھی صدیوں پہلے۔ ان کا خیال ہے کہ زمین کے اس حصے پر کبھی بیرونی دنیا کے خلاء نوردوں نے قبضہ کیا ہوا تھا اور یہاں اپنا ائیر پورٹ بھی بنا رکھا تھا۔ نازکا خطوط میں کچھ جگہوں پر آج کے دور کے رن وے کی سی لمبی لمبی لکیریں بھی کھینچی گئی ہیں۔ وہ کہتے ہیں آج سے ہزاروں سال قبل جب ہوائی جہازوں کا تصور بھی نہیں تھا، پھر یہ تصویریں کیسے بنائی گئی ہونگی؟ اور ہزاروں سال ہی قبل اس طرح کے لمبے لمبے اور جدید رن وے بنانے کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی؟ اسکا مطلب یہ ہے وہ لوگ ادھر اپنے خلائی جہاز اتارتے تھے۔
تصاویر بنائیں کیسے:
یہ تعین کرنا کہ ان خطوط کو کھینچا کیسے ہوگا تو اس کے جواب میں نظریہ ساز دانش وروں کا کہنا ہے کہ نازکا لوگوں نے ان کے لیے سادہ سادہ سے اوزار اور سروے کے سیدھے سبھائو آلات استعمال کیے ہیں۔ آثار کے سروے کرنے والوں کو بعض خطوط کے اختتام پر لکڑی کی بعض نوکیلی کھونٹیاں سی ملی ہیں جس سے ان کے خیال کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ جوئے نِکل نامی ایک ماہر نے نازکا عہد کے لوگوں کے اوزاروں اور آلات کے خاکے بھی تیار کر دیے۔ جنہیں دی نیشنل جیوگرافک نے اصل خطوط کی ہیئت کے قریب تر تسلیم کرکے اسے جوئے نکل کا قابل ذکر کام قرار دیا۔
اس کے علاوہ ایک سائنس دان کا کہنا ہے کہ ان تصاویر کو گرم ہوا سے اڑنے والے غباروں کی مد سے بنایا گیا ہے۔
اس تھیوری کو لوگوں نے اس لئے رد کیا نازکا کی تاریخ میں ایسے غباروں کا کوئی ثبوت نہیں۔ ان غباروں سے نازکا خطوط کو دیکھنا بھی آسان نہیں بنانا تو دور کی بات ہے۔
مورخین، دانش ور، ماہرین مذہبیات، آثار قدیم کے ماہر اور مختلف علوم کے جید لوگ برسوں سے اس پیچ دار گرہ کو کھولنے میں کوشاں ہیں۔ شاید کسی روز یہ سب کسی ایک نظریے پر متفق ہو جائیں اور اس معمے کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں